Sunday 9 February 2020

Falak Hafsa Feature Urdu Revised 47

Editors pls while editing keep in mind  noting abt referred back                   
           خواہشات مار دیتی ہیں 
فلک حفصہ 
2k18/MC/47
خواہش لفظ سنے میں کتنا ہلکا اور میٹھا لگتا ہے۔مگر در حقیقت میں اتنا ہی بھاری اور کڑواہوتا ہے۔کسی دانا کا کہنا ہے کہ بعض خواہشات کا مر جانا ہی بہتر ہوتا ہے،کیونکہ اگر وہ نہیں مرتی تو وہ آپ کو مار دیتی ہیں۔کسی بھی چیز کی خواہش کرنا برا نہیں ہوتا۔ مگر انہیں خواہشات کے پیچھے بھاگ کر اپنوں کو تکلیف دینا یا کسی لاحاصل چیز کے چکر میں حاصل کو کھو دینامنفی عمل ہوتا ہے۔آج کے دور میں خواہشوں کے پیچھے بھاگنے والے اور پھر اپنی زندگی کو برباد کرنے والوں کی مثالیں کثرت کی تعداد میں موجود ہیں۔بے جا خواہش کے پیچھے بھاگنے والاخواہ مرد ہو یا عورت،نقصان اٹھاتا ہے۔اور کبھی کبھی یہ نقصان اس کے گھر والوں کے بھی زمرے میں بھی آتا ہے۔بے جا خواہشوں کی وجہ سے لوگ اپنا آپ برباد کرلیتے ہیں۔اور جب بعد میں ان کو احساس ہوتا تو اپنی بربادی کا سوگ منا کر اپنی زندگی گزار لیتے ہیں۔مگر کچھ لوگ اپنی بے جا خواہشات کے تکمیل کے نشے میں اتنے آندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنی بربادی کا سامان دیکھ بھی نہیں سکتے۔
یہی حال لطیف آباد نمبر ۴ میں رہنے والی عورت فاطمہ کا ہے جو پیسوں کا ذخیرہ جمع کرنے کے باوجود بھی کرائے کے گھرمیں غریبوں جیسی زندگی گزار رہی ہے۔ اپنوں اور رشتہ داروں کے ہونے کے باوجود بھی تنہا ہے۔آخرکیوں؟ان کے بیٹے حسن اور بہو کا کہنا ہے کہ فاطمہ بی انکے ساتھ خوش حال ذندگی گزار رہی تھی۔اور پیشہ ور نرس تھی۔میری کمائی سے گھریلوں حالات بھی خوش گوار تھے۔مگر فاطمہ بی کوپیسے جمع کرنے کا شوق تھا۔ان کی خواہش تھی کہ وہ ڈھیر سارے پیسے جمع کریں اور دنیا کو بتا سکے کہ ان کو کسی چیز کی کمی نہیں۔انکے بیٹے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی خواہش کی تکمیل کی وجہ سے وہ فطرت میں بخیل تھی۔اپنی تنخواہ کو جمع کرکے رکھنا اس کا شو ق تھا۔اور نہ کبھی ہم نے ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا۔جب مہنگائی کی وجہ سے میرے گھریلو حالات تھوڑے خراب ہونا شروع ہوئے تو فاطمہ بی کو اس بات کا خدشہ ہوا کہ کہیں میں ان سے مالی مدد نہ مانگ لوں۔یہ سوچتے ہوئے فاطمہ بی نے گھر میں نا خوش گوار ر ویہ اختیار رکھنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے گھریلوں حالات بہت متاثر ہوئے۔ گھر میں نا چاقیاں اور نا اتفاقی بڑھ گئی۔اور ایک دن حد سے زیادہ اختلافات اور غصہ میں آکر فاطمہ بی نے گھر سے پیسے اور زیور لیا اور گھر چھوڑ کر چلی گئی۔فاطمہ بی کی بہو کا کہنا ہے کہ میں نے اماں کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی مگر وہ نہ رکی۔
لطیف آباد نمبر ۴ میں کرایہ کے چھوٹے سے گھرمیں رہنے والی فاطمہ بی کا کہنا ہے کہ۔ میرے بیٹے اور بہو کی نظر میرے پیسوں پہ تھی۔میری محنت کی کمائی جو میں کئی سالوں سے جمع کررہی تھی۔ وہ سب مجھ سے چھین لیتے۔ اسی وجہ سے میں نے وہ گھر چھوڑ دیا۔اور میں اپنے اس فیصلے سے مطمئن ہوں۔
ا پنے عزیز و رشتہ داروں سے اسی ڈر کی وجہ سے نہیں ملتی کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے میرے پیسے نہ چھین لیں۔اس نے رشتوں سے زیادہ پیسوں سے عشق کیا۔پیسوں کا ذخیرہ جمع کرنے کی خواہش نے اسکو نفسیاتی مریض بنا دیا۔کہ آج وہ لاکھوں کی مالک ہونے کے باوجود مفلسی والی زندگی گزار رہی ہے۔عورت کی اس خواہشوں نے اس کواپنے عزیز و قارب سے دور ایک الگ تھلگ زندگی گزانے پر مجبور کردیا۔اس کرایہ کے چھوٹے مکان میں تن تنہا رہنے والی عورت کو اس بات کا زرہ ملال نہیں کہ وہ اپنی بے جا خواہشوں کی وجہ سے کس حد تک برباد ہوگئی ہے۔ان حالات میں بھی اس عورت کا ماننا ہے کہ پیسہ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔مگر شاید وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس عورت کی خواہشوں نے اس کو جیتے جی مار دیا۔


Feature is always reporting based - observation, talk with related people, Its basic purpose is to provide entertainment Or it provides information in entertaining manner.
If its real and specific story, it needs 5Ws +1H and 
U will have to make it more specific and concretise it by giving different incidents, dialogues etc like a complete story
Observe para.
Presently its in article or essay style 
Referred back 


 خواہشات مار دیتی ہیں
فلک حفصہ 
2k18/MC/47
خواہش لفظ سنے میں کتنا ہلکا اور میٹھا لگتا ہے۔مگر در حقیقت میں اتنا ہی بھاری اور کڑواہوتا ہے۔کسی دانا کا کہنا ہے کہ بعض خواہشات کا مر جانا ہی بہتر ہوتا ہے،کیونکہ اگر وہ نہیں مرتی تو وہ آپ کو مار دیتی ہیں۔کسی بھی چیز کی خواہش کرنا برا نہیں ہوتا۔ مگر انہیں خواہشات کے پیچھے بھاگ کر اپنوں کو تکلیف دینا یا کسی لاحاصل چیز کے چکر میں حاصل کو کھو دینامنفی عمل ہوتا ہے۔آج کے دور میں خواہشوں کے پیچھے بھاگنے والے اور پھر اپنی زندگی کو برباد کرنے والوں کی مثالیں کثرت کی تعداد میں موجود ہیں۔بے جا خواہش کے پیچھے بھاگنے والاخواہ مرد ہو یا عورت،نقصان اٹھاتا ہے۔اور کبھی کبھی یہ نقصان اس کے گھر والوں کے بھی زمرے میں بھی آتا ہے۔بے جا خواہشوں کی وجہ سے لوگ اپنا آپ برباد کرلیتے ہیں۔اور جب بعد میں ان کو احساس ہوتا تو اپنی بربادی کا سوگ منا کر اپنی زندگی گزار لیتے ہیں۔مگر کچھ لوگ اپنی بے جا خواہشات کے تکمیل کے نشے میں اتنے آندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنی بربادی کا سامان دیکھ بھی نہیں سکتے۔یہی حال ایک ایسی عورت کا ہے جو پیسوں کا ذخیرہ جمع کرنے کے باوجود بھی کرائے کے گھرمیں غریبوں جیسی زندگی گزار رہی ہے۔ اپنوں اور رشتہ داروں کے  ہونے کے باوجود بھی تنہا ہے۔آخرکیوں؟یہی عورت اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ خوش حال ذندگی گزار رہی تھی۔اور پیشہ ور ڈاکٹر تھی۔ بیٹے کی کمائی سے گھریلوں حالات بھی خوش گوار تھے۔اس عورت کوپیسے جمع کرنے کا شوق تھا۔اس عورت کی خواہش تھی کہ وہ ڈھیر سارے پیسے جمع کرے اور دنیا کو بتا سکے کہ اس کو کسی چیز کی کمی نہیں۔اسی خواہش کی تکمیل کی وجہ سے وہ فطرت میں بخیل تھی۔اپنی تنخواہ کو جمع کرکے رکھنا اس کا شوق۔منہ زور خواہشات سر اٹھا کر اس کے سامنے تب آئی جب کسی وجہ سے گھر اسکے بیٹے کے نام ہوگیا۔تب پہلی بار اس کو کچھ چھن جانے کا احساس ہوا۔اوپرسے لوگوں کا بھڑکانے والا رویہ کہ       کیوں پیسہ ان لوگوں پر ضائع کررہی ہو؟دیکھا جائیداد نام کردی اب توبیٹا پوچھے گا بھی نہیں! یہ دونوں بہو بیٹا تم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ یہی باتیں اس عورت کے دماغ پر قابض ہوگئی۔اور آہستہ آہستہ اسکی نفسیات بھی منفی ہونے لگی۔یہاں سے اس عورت کی خواہشوں نے بربادی کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔ انہیں منفی سوچوں کی وجہ سے اس عورت نے گھر میں نا خوش گوار ر ویہ اختیار رکھنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے گھریلوں حالات بہت متاثر ہوئے۔ گھر میں نا چاقیاں اور نا اتفاقی بڑھ گئی۔ حد سے زیادہ اختلافات کی وجہ سے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے چکر میں اس عورت نے اپنے گھر سے پیسے اور زیور لیا اور گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ اور دور دراز علاقہ میں کرایہ کے چھوٹے سے گھرمیں رہنے لگی۔اپنے عزیز و رشتہ داروں سے دور اسی ڈر کی وجہ سے کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے میرے پیسے نہ چھین لیں۔اس نے رشتوں سے زیادہ پیسوں سے عشق کیا۔پیسوں کا ذخیرہ جمع کرنے کی خواہش نے اسکو نفسیاتی مریض بنا دیا۔کہ آج وہ لاکھوں کی مالک ہونے کے باوجود مفلسی والی زندگی گزار رہی ہے۔عورت کی اس خواہشوں نے اس کواپنے عزیز و قارب سے دور ایک الگ تھلگ زندگی گزانے پر مجبور کردیا۔اس کرایہ کے چھوٹے مکان میں تن تنہا رہنے والی عورت کو اس بات کا زرہ ملال نہیں کہ وہ اپنی بے جا خواہشوں کی وجہ سے کس حد تک برباد ہوگئی ہے۔ان حالات میں بھی اس عورت کا ماننا ہے کہ پیسہ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔مگر شاید وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس عورت کی خواہشوں نے اس کو جیتے جی مار دیا۔

Falak Hafsa Feature Urdu

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Institute of Media & Communication Studies, University of Sindh, Jamshoro, Sindh Pakistan

No comments:

Post a Comment