Saturday 15 February 2020

Awais Muneer- Feature- Urdu 89

Pls check noting on first version, is ti carried out?                                                                                                   
 نام محمد اویس منیر 
بی ایس پارٹ تھری 
   رول نمبر: ۸۹                                                  جھول کے کتے اور سندھ  
جھول کے کتے کیوں مشہور ہیں؟  جھول کتوں کی وجہ سے کیوں مشہور ھیں؟ جھول کتوں کی وجہ سے اس لئے بھی مشہور ہے کیوں کے جھول میں ہر قیسم رنگ و نسل  کے کتے پائے جاتے ہے اس لئے جھول کتوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔سندھ کے ٖشہر سانگھڑ  کا ایک گاؤں جو کتوں کے نام سے مشہور ھیں اس کی  وجہ یہ ھیں کے جھول ایک نیچے والا گاؤں ھیں نیچے والے گاؤں سے معراد جھول ایک میدانی علاقہ تھااورجھول ضعلع سانگھڑکے درمیان میں آتا ہیں  ضعلع سانگھڑکے سب چھوٹے بڑے شہرکے  لوگ شہر کے کتے اور گنڈ کچرا جھول میں پھنک   اور چھوڑ کر چلے جاتے تھے پہلے جھول کی آبادی بہت کم تھی آہستہ آہستہ جب جھول کی آبادی بھرنا شروع ہوئی تو لوگوں نے کتوں کی بھرتی ہوئی آبادی میں کوئی دلچسپی نہیں لی کتوں کی آبادی اس حد تک بھر گئی کے لوگ بتاتے ھیں کے سانگھڑکے اس چھوٹے سے گاؤں کو لوگ نے اس کہاوت سے مہشورکر دیاکہ جھول کتوں کی وجہ سے مہشور ہیں جھول میں ہر قیسم کے کتے پائے جاتے ھے جس میں شامل ہیں آوارہ قیسم کے کتے،تازئی نسل کے کتے،بھولئی نسل کے کتے،عام نسل کے کتے،گریٹ ڈین نسل کے کتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔پورے سندھ میں آج کل یہی حال ہیں جھول کے کتے اور سندھ کے۔  
 کتوں کی کہانی ایک لڑکے کی زبانی سانگھڑ کے لوگوں کا جینا حرام پیپر ختم ہوتے ہی افضل نے کچھ دن اپنے ماموں کے گھر جانے کا فیصلہ کیا افضل کے ماموں سندھ کے ضلع سانگھڑ کے قریبی گاوٗں میں رہتے تھے جس کا نام جھول تھا افضل اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے ماموں کے گھر کے لیے نکلا.ماموں کے گھر پہنچنے کے بعد سب کزن سے ملنے کے بعد کھانا کھایا.کھانے کے میز پر افضل کی مامی نے بتایا.کے آج جھول کی ٹاون کمیٹی میں سے کچھ لوگ آے جو کتوں کو گولی مار رہے تھے. کیونکہ کل رات ا یک لڑکے کو کتے نے بہت شدید زخمی کردیا تھا.اس لڑکے کی ٹانگ پر بارہ ٹانکے لگے.اور اس لڑکے کو کتے کے کاٹنے کی ویکسین کے دو ٹیکے لگے.اور بارہ ٹیکے باقی ہیں.ماموں جان نے بتایا کے آج کل کتوں میں کوئی انفیکشن وائرس آیا ہے. جس کی وجہ سے پورے ملک میں جگہ جگہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کاٹنے کے واقعیات سامنے آرہے ہیں.مگر حکومت کوئی نافذ اقدامات نہیں کر رہی.جھول میں کتوں کی آبادی اس حد تک ہو چکی ہے کہ شام کے سات بجے  کے بعدکوئی آدمی اکیلا گلیوں سے بغیر کسی ہتھیار کے نہیں گزر سکتا. کیونکہ یہ سب آوراہ کتے ہیں.ان کتوں میں کچھ اتنے خطر ناک کتے ہیں. کہ وہ دیکھتے ہی حملہ کر دیتے ہیں.پچھلے ہفتے ان کتوں کے حملے کی وجہ سے جھول اور سانگھڑ میں ہڑتال کی گئی تھی.ایک سات سال کی بچی کو کتے نے منہ پر کاٹا اور سانگھڑ کے سول ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں لے کر گئے.جس کے نتیجے میں اس بچی کے منہ پر پانچ ٹانکے لگے تھے.پورے سندھ میں آج کل یہ ہی حال ہے.ماموں جان نے بتایاکے ان کے علاقے کے تقریبا لو گوں نے شکایت کی ہے لیکن کوئی بھی رد عمل نہیں آیا.اس کے علاوہ ایک وقت تو ایسا گزرا جس میں پورے ضلح سانگھڑ کے سول اسپتال میں ویکسین ہی نہیں ملی مریض کو جس کی وجہ سے اس مریض کی جان چلی گئی.ماموں کی بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کے ہمارے سندھ کے ذیادہ لوگ تو غربت کے مارے ہوے لوگ ہیں اور اگر غریب عوام کو وقت پرویکسین نہ ملے تو یہ غریب لوگ تو مر جائیں گے ہمارے ملک کی حکومت کو ان آوارہ کتوں   کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کر نے کے لیے نافذ اقدام کرنے چاہئے تاکہ لوگوں میں کتوں کی دہشت کو ختم کیا جا سکے اگلے دن جب میں ماموں کے گھر سے باہر نکلا تو میرے سامنے ایک بچی جس کی عمر صرف نو سال تھی  دوکان سے چیز لے کر واپس آرہی تھی نا جانے کہاں سے ایک کتا آیا اور اس بچی پر حملہ کر کے اس بچی کو شدید زخمی کر دیا اتنے میں وہاں لوگ جمع ہو گئے اور اس بچی کو فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا اور میں بھی لوگوں کے پیچھے ہسپتال پہنچا اور ہسپتال میں لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ وہاں  ستر سے اسی لوگ کتے کے کاٹنے کی ویکسین لینے آئے تھے دل میں سوچا کے اس ملک کا کیا ہوگا جہاں آئے روز اتنے واقعے ہو رہے ہیں اور حکومت کا کوئی بندہ اس بات پر روشنی ڈالنے کو تیار ہی نہں جب کے دوسرے ملکوں میں  ایسے واقعے پر فورا ٰاقدامات لیے جاتے ہیں.اور  پھر جب اگلی صبح واپس اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے شہر کی طرف جا رہا تھا تو پورے راستے میرے دماغ میں کتوں سے زخمی ہونے والے لوگوں کے واقعات رونما ہو رہے تھے راستے میں تقریبا دس سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ساٹھ سے ستر آوارہ کتے بنا کسی خوف سے گھوم رہے تھے اور ان کتوں کی وجہ سے جھول سانگھڑ اور سندھ کی عوام خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو دیکھتے لوگ اپنی مدد آپ سے کتوں کو مارنا شروع کر دیا ہے 
                     شکریہ




Proper paragrphing is missing
 How this proverb was developed? 
Its not reporting based. 
Story seems fictitious 
These comments were made in email: Make it reporting based. Why this proverb of Dogs of Jhol 
However do not resend now

Awais Muneer- Feature
Roll No 89
  محمد اویس منیر 
بی ایس پارٹ تھری 
   رول نمبر: ۹۸   
    جھول کے کتے اور سندھ      
 کتوں کی کہانی ایک لڑکے کی زبانی سانگھڑ کے لوگوں کا جینا حرام پیپر ختم ہوتے ہی افضل نے کچھ دن اپنے ماموں کے گھر جانے کا فیصلہ کیا افضل کے ماموں سندھ کے ضلع سانگھڑ کے قریبی گاوٗں میں رہتے تھے جس کا نام جھول تھا افضل اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے ماموں کے گھر کے لیے نکلا.ماموں کے گھر پہنچنے کے بعد سب کزن سے ملنے کے بعد کھانا کھایا.کھانے کے میز پر افضل کی مامی نے بتایا.کے آج جھول کی ٹاون کمیٹی میں سے کچھ لوگ آے جو کتوں کو گولی مار رہے تھے. کیونکہ کل رات ا یک لڑکے کو کتے نے بہت شدید زخمی کردیا تھا.اس لڑکے کی ٹانگ پر بارہ ٹانکے لگے.اور اس لڑکے کو کتے کے کاٹنے کی ایکسین کے دو ٹیکے لگے.اور بارہ ٹیکے باقی ہیں.ماموں جان نے بتایا کے آج کل کتوں میں کوئی انفیکشن وائرس آیا ہے. جس کی وجہ سے پورے ملک میں جگہ جگہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کاٹنے کے واقعیات سامنے آرہے ہیں.مگر حکومت کوئی نافذ اقدامات نہیں کر رہی.جھول میں کتوں کی آبادی اس حد تک ہو چکی ہے کہ شام کے سات بجے  کے بعدکوئی آدمی اکیلا گلیوں سے بغیر کسی ہتھیار کے نہیں گزر سکتا. کیونکہ یہ سب آوراہ کتے ہیں.ان کتوں میں کچھ اتنے خطر ناک کتے ہیں. کہ وہ دیکھتے ہی حملہ کر دیتے ہیں.پچھلے ہفتے ان کتوں کے حملے کی وجہ سے جھول اور سانگھڑ میں ہڑتال کی گئی تھی.ایک سات سال کی بچی کو کتے نے منہ پر کاٹا اور سانگھڑ کے سول ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں لے کر گئے.جس کے نتیجے میں اس بچی کے منہ پر پانچ ٹانکے لگے تھے.پورے سندھ میں آج کل یہ ہی حال ہے.ماموں جان نے بتایاکے ان کے علاقے کے تقریبا لو گوں نے شکایت کی ہے لیکن کوئی بھی رد عمل نہیں آیا.اس کے علاوہ ایک وقت تو ایسا گزرا جس میں پورے ضلح سانگھڑ کے سول اسپتال میں ویکسین ہی نہیں ملی مریض کو جس کی وجہ سے اس مریض کی جان چلی گئی.ماموں کی بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کے ہمارے سندھ کے ذیادہ لوگ تو غربت کے مارے ہوے لوگ ہیں اور اگر غریب عوام کو وقت پرویکسین نہ ملے تو یہ غریب لوگ تو مر جائیں گے ہمارے ملک کی حکومت کو ان آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کر نے کے لیے نافذ اقدام کرنے چاہئے تاکہ لوگوں میں کتوں کی دہشت کو ختم کیا جا سکے اگلے دن جب میں ماموں کے گھر سے باہر نکلا تو میرے سامنے ایک بچی جس کی عمر صرف نو سال تھی  دوکان سے چیز لے کر واپس آرہی تھی نا جانے کہاں سے ایک کتا آیا اور اس بچی پر حملہ کر کے اس بچی کو شدید زخمی کر دیا اتنے میں وہاں لوگ جمع ہو گئے اور اس بچی کو فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا اور میں بھی لوگوں کے پیچھے ہسپتال پہنچا اور ہسپتال میں لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ وہاں  ستر سے اسی لوگ کتے کے کاٹنے کی ویکسین لینے آئے تھے دل میں سوچا کے اس ملک کا کیا ہوگا جہاں آئے روز اتنے واقعے ہو رہے ہیں اور حکومت کا کوئی بندہ اس بات پر روشنی ڈالنے کو تیار ہی نہں جب کے دوسرے ملکوں میں  ایسے واقعے پر فورا ٰاقدامات لیے جاتے ہیں.اور  پھر جب اگلی صبح واپس اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے شہر کی طرف جا رہا تھا تو پورے راستے میرے دماغ میں کتوں سے زخمی ہونے والے لوگوں کے واقعات رونما ہو رہے تھے راستے میں تقریبا دس سے بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ساٹھ سے ستر آوارہ کتے بنا کسی خوف سے گھوم رہے تھے اور ان کتوں کی وجہ سے جھول سانگھڑ اور سندھ کی عوام خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو دیکھتے لوگ اپنی مدد آپ سے کتوں کو مارنا شروع کر دیا ہے 


No comments:

Post a Comment