Thursday 13 February 2020

Saba Akram Feature Urdu Referred back 129

Revised
Check noting is carried out?
 صبا اکرم  
رول نمبر؛    129 
میڈیم؛اردو
                                      ہاسٹل کی زندگی

یونیورسٹی آنے سے پہلے مجھے بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہاسٹل کی زندگی کیسی ہوتی ہے کیوں کہ میں نے کبھی بھی ہاسٹل میں زندگی نہیں گزاری تھی بس یہاں آنے سے پہلے امی نے یہ کہا تھا کہ جب کام کی ذمہ داریاں بڑھیں گی جب امی کی یاد آئے گی اور ہاں امی کی یاد واقعی آئی۔ ہا سٹل میری زندگی کے آگے کے پنوں کو بھرنے جارہا تھا پہلے دن تھک ہار کے آرام سے موج مستی کر کے میں سوگئی اور پھر صبح چار بجے میری آنکھ کھلی کہ اب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میرے پاس میری ماں نہیں جو بڑے پیار سے مجھے جگاتی بیٹا اُٹھ جا تھک ہار کے الس میں میں کہتی امی تھوڑی دیر اور سونے دیں۔ تبھی کہیں سے ایک کڑک آواز آتی میرے ابو کی کیوں بھئی صاحبزادی ابھی تک سورہی ہو۔ کمی کھَل رہی تھی امی ابو کے پیار کی، کمی کھَل رہی تھی اُن آراموں کی لیکن میں اکیلی نہیں تھی۔ہاسٹل میں ایسے کئی اور لوگ بھی تھے جو میری طرح امی ابو کو یاد کرتے تھے لیکن کئیوں نے ہار مان لی تھی لیکن آج میں سمجھتی ہوں کہ میرے امی ابو کا سب سے اچھا فیصلہ تھا۔ میرا ہاسٹل یونیورسٹی سے زیادہ دور نہیں تھا۔صرف دس منٹ کی دوری پہ ہی تھاجہاں میں رکشہ اور یونیورسٹی کی بس سے آتی جا تی تھی۔میرا ہاسٹل 3 منزلہ عمارت پر مشتمل تھا جس میں تقریبا 12 ِسے زائد کمرے تھے۔ہاسٹل میں 50سے زائد لڑکیاں تھیں۔میرے ہاسٹل مسکان گرلز ہاسٹل کے نام سے مشہور تھا۔ جو کہ جامشورو سوسا ئٹی میں واقع تھا۔ ہاسٹل کا نام سوچ کے ہی دل عجیب ہوجاتا تھا میرا۔ میری ہاسٹل میں کوئی پکی سہیلی بھی نہیں بنی بد قسمتی سے تو وقت گزارنا یونیورسٹی سے آنے کے بعد بہت مشکل ہوجاتا تھا۔ لیکن یہی ہمارا اب دوسرا گھر تھااور کب یہ میرا گھر بن گیا مجھے پتا ہی نہیں چلا اور پھر وقت بھی اچھا گزرنے لگا۔ ہاسٹل کے باہر عوام کو لگتا ہے کہ یہ ہر وقت پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں لیکن آج کی نالائیک نسل سے پڑھائی بھی ہر وقت نہیں ہوتی۔چھٹی کا سارا دن بستر پر ہی گزرجاتا۔ کبھی جوش آ جا تا تو چائے پینے نکل جاتی شام میں۔ ہاسٹل کی بے بس عوام جو اس معاشرے میں رہتی تو ہے مگر جیتی نہیں ہے کیوں کہ زندگی کی سختیاں سہ سہ کہ ہاسٹل والے ہر حال میں جینا سیکھ لیتے ہیں۔ ہمارا ہاسٹل گورنمنٹ ہاسٹل سے کئی گُنابہتر تھا کیوں کہ ہمارے ہاسٹل میں ہر کمرے کے ساتھ واش روم تھا اور اس کے بر عکس گورنمنٹ ہاسٹل میں دن کی شروعات واش روم کے آگے پہلے آؤ  پہلے پاؤ پر کی بنیاد پر تھی۔کہنے کو تو گورنمنٹ ہاسٹل میں 100سے زائد واش روم ہوتے ہیں لیکن ان میں سے 75واش روم صحیح سلامت شکل والے شاور سے محروم ہوتے تھے اور بچے پانچ پہ 500 لوگوں پہ صفائی کی ذمہ داری ہوتی تھی باقی یہ شاور خراب نہیں ہوتے میری جان ہوتے ہی نہیں ہیں۔اکثر ایک پتلی پائپ نظر آتی ہے جس کو چلانے سے فوارہ نہیں بلکہ ایک لیزر نما دھار نکلتی ہے جو کہ آپکو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاسٹل میں آئے دن کسی نہ کسی کے کمرے سے شور کی آوازیں آتی ہیں اور جا کے دیکھو ں تو ایک کے بال دوسری کے ہاتھ میں اور دوسری کے ہاتھ تیسری کے ہاتھ میں اور مزے ہمارے ہوجاتے۔ گورنمنٹ ہاسٹل میں روٹی کے نام پر اکثر جانور کی چمڑی دی جاتی ہے۔روٹی اس کے کھانے کے کام آئے یا نہ آئے لیکن دشمنوں پہ حملہ کرنے کے ضرور کام آتی ہے۔ ہم غربت کے ماروں کا یہ حال  ہے کہ اگر قراندازی میں جہاز بھی نکل آئے تو بھی ہم کو اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی تب ہوتی ہے جس دن بریانی یہ قورمہ پکتا ہو۔ایک سے زیادہ ہم نے پلیٹ میں بوٹی دیکھی نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں اگر کسی کمرے میں گھر کا کھانا آجائے تو جنگل میں آگ کی طرح بات پھیل جاتی ہے اور سب پھر اس کھانے پر ٹوٹ پڑتی ہیں پھر بے شک پیچھے زلزلے آرہے ہوں یہ دنیا تباہ ہورہی ہو لیکن کھانا نہیں چھوڑنا۔ فروٹ تو برسوں سے ہمارے نصیبوں سے چلا گیا ہو کمزوریوں کے مارے شکل چھواروں جیسی ہوگئی ہے۔لنڈے کی ریڑی ہو یا ہاسٹل کی الماری میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔امتحان کی رات بھی خوب کچیری لگائی جاتی ہے۔گورنمنٹ  ہاسٹل میں گیلیلو کے زمانے کا پرانہ انٹرنیٹ مو ڈیم لگا  ہوا ہوتا ہے جو کہ کچھوے کے نانا ابو سے بھی زیادہ آہستہ چلتا ہے۔ہاسٹل میں رہنے والی کئی لڑکیوں سے میں نے گفتگو کی جن میں سے نادیہ کاکہنا تھا کہ وہ دو سال سے مسکان گرلز ہاسٹل میں مقیم ہیں اور انہیں یہ ہاسٹل اپنے گھر کی طرح لگتاہے۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہتی ہیں یہاں ہر قسم کی آزادی ہے ۔انکا مزید یہ کہنا تھا کہ یہاں ہمیں گورنمنٹ  ہاسٹل سے زیادہ سہولیات میسر کی جاتی ہیں۔ زندگی کہاں سے کہاں لے جاتی ہے کچھ پتا ہی نہیں چلتا لیکن اس با ت کا یقین ضرور ہے ہم دنیا کے جس بھی کونے میں رہیں گے جس بھی حال میں رہے گے لیکن ہی ہاسٹل کی شامیں، یہ لاپرواہ راتیں اور بے فضول حرکتیں ہمیں ہمیشہ جوڑیں رہیں گی۔  ہاسٹل میں گزارہ ہوا وقت  وہ کبھی بھولا نہیں جاسکتا۔ شام ہوتے ہی ہاسٹل سے باہر نکل جانا، گھومنا پھرنا،دوستوں کے ساتھ شغل کرنا، موج مستی کرنا۔ شاید خیالوں، خواہشوں،اور امیدوں میں ہی صحیح لیکن ہاسٹل کی شاموں میں ہم ہمیشہ آزاد، مکمل اور زندہ رہیں گے۔ 



its 520 words requirement is 600 plus 
Observe para 
Can u make it reporting based? what other people say
How it is different from govt hostels? 
 صبا اکرم  
رول نمبر؛    129 
Saba Akram, BS, 129, Urdu, Feature, 

                                      ہاسٹل کی زندگی

یونیورسٹی آنے سے پہلے مجھے بلکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہاسٹل کی زندگی کیسی ہوتی ہے کیوں کہ میں نے کبھی بھی ہاسٹل میں زندگی نہیں گزاری تھی بس یہاں آنے سے پہلے امی نے یہ کہا تھا کہ جب کام کی ذمہ داریاں بڑھیں گی جب امی کی یاد آئے گی اور ہاں امی کی یاد واقعی آئی۔میرا ہاسٹل یونیورسٹی سے زیادہ دور نہیں تھا۔صرف دس منٹ کی دوری پہ ہی تھاجہاں میں رکشہ اور یونیورسٹی کی بس سے آتی جا تی تھی۔میرا ہاسٹل 6 منزلہ عمارت پر مشتمل تھا جس میں تقریبا 24   ِسے زائد کمرے تھے۔ہاسٹل میں 150سے زائد لڑکیاں تھیں۔میرے ہاسٹل مسکان گرلز ہاسٹل کے نام سے مشہور تھا۔ جو کہ جامشورو سوسا ئٹی میں واقع تھا۔ ہاسٹل کا نام سوچ کے ہی دل عجیب ہوجاتا تھا میرا۔ میری ہاسٹل میں ایک سہیلی بھی نہیں بنی بد قسمتی سے۔ہاسٹل کی بے بس عوام جو اس معاشرے میں رہتی تو ہے مگر جیتی نہیں ہے کیوں کہ زندگی کی سختیاں سہ سہ کہ ہاسٹل والے ہر حال میں جینا سیکھ لیتے ہیں۔دن کی شروعات واش روم کے آگے پہلے آؤ پہلے پاؤ پر کی بنیاد پر تھی۔کہنے کو تو ہاسٹل میں 30سے زائد واش روم تھے لیکن ان میں سے 25 واش روم صحیح سلامت شکل والے شاور سے محروم ہوتے تھے اور بچے پانچ پہ 500 لوگوں پہ صفائی کی ذمہ داری ہوتی تھی باقی یہ شاور خراب نہیں ہوتے میری جان ہوتے ہی نہیں ہیں۔اکثر ایک پتلی پائپ نظر آتی ہے جس کو چلانے سے فوارہ نہیں بلکہ ایک لیزر نما دھار نکلتی ہے جو کہ آپکو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔آئے دن کسی نہ کسی کے کمرے سے شور کی آوازیں آتی ہیں اور جا کے دیکھو ں تو ایک کے بال دوسری کے ہاتھ میں اور دوسری کے ہاتھ تیسری کے ہاتھ میں۔ روٹی کے نام پر اکثر جانور کی چمڑی دی جاتی ہے۔روٹی اس کے کھانے کے کام آئے یا نہ آئے لیکن دشمنوں پہ حملہ کرنے کے ضرور کام آتی ہے۔ ہم غربت کے ماروں کا یہ حال  ہے کہ اگر قراندازی میں جہاز بھی نکل آئے تو بھی ہم کو اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی تب ہوتی ہے جس دن بریانی یہ قورمہ پکتا ہو۔ایک سے زیادہ ہم نے پلیٹ میں بوٹی دیکھی نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں اگر کسی کمرے میں گھر کا کھانا آجائے تو جنگل میں آگ کی طرح بات پھیل جاتی ہے اور سب پھر اس کھانے پر ٹوٹ پڑتی ہیں پھر بے شک پیچھے زلزلے آرہے ہوں یہ دنیا تباہ ہورہی ہو لیکن کھانا نہیں چھوڑنا۔ فروٹ تو برسوں سے ہمارے نصیبوں سے چلا گیا ہو کمزوریوں کت مارے شکل چھواروں جیسی ہوگئی ہے۔لنڈے کی ریڑی ہو یا ہاسٹل کی الماری میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔امتحان کی رات بھی خوب کچیری لگائی جاتی ہے۔ہاسٹل میں گیلیلو کے زمانے کا پرانہ انٹرنیٹ مو ڈیم لگا ہوا ہے جو کہ کچھوے کے نانا ابو سے بھی زیادہ آہستہ چلتا ہے۔زندگی کہاں سے کہاں لے جاتی ہے کچھ پتا ہی نہیں چلتا لیکن جو وقت ہاسٹل میں گزازہ ہو وہ کبھی بھولا نہیں جاسکتا۔میں نے اپنا پور اعرصہ اکیلے گزارہ جو نہایت منفرد رہا۔

No comments:

Post a Comment