Monday 3 February 2020

Hamid Shah BS-55 - Article Urdu Referred back

This is copy paste from 
pls avoid copy paste, write from ur own mind 
Pls send from ur own email. Subject line and file name not proper
Referred back. Send revised version till Feb 7, otherwise it will be marked as REJECTED
فنی مہارت کی اہمیت 

دنیا چاہے مجھے جس نظر سے دیکھے۔۔۔۔ میں دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہوں 
تعلیم و تر بیت کے بغیر معا شر ہ تر قی نہیں کر سکتا تعلیم و تر بیت کا چو لی دا من ا سا تھ ہے تعلیم کے سا تھ تر بیت نہ کی جا ئے تو طا لبعلم میں ما جود صلا حیتوں میں نکھا ر پید ا نہیں ہو سکتا ایک کا میاب طا لبعلم ہو نے کیلئے تعلیم کے سا تھ تر بیت کا ہو نا لا ز م ہے۔ علم کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت فنی تعلیم کو حاصل ہے نوجوان بچے اور بچیاں قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں،وہ معمار قوم ہیں،انہیں علم و ہنر سے منور کرکے ان کی خدا داد صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور پھر خود کفالت سے ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہونی چاہیئے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے،پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی تعلیم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ملک کی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے،

پنجاب آٹھ کروڑ آبادی کا صوبہ ہے اور اس میں گیارہ تعلیمی بورڈ ہیں جن میں فنی تعلیمی بورڈ صرف ایک ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں فنی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چار سے چھ فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح چھیاسٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے ہمارے ملک میں آمدنی کا صرف1-7فیصد جبکہ دیگر ممالک میں 7سے 9فیصد رقم تعلیم پر خرچ کی جاتی ہے،ہمارے ملک کے 51فیصد بچے پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرتے اور صرف 6سے7فیصد نوجوان فنی تعلیم کی دسترس رکھتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تعداد ساٹھ فیصد ہے17سے30 سال تک عمر کے نوجوانوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے جن میں سے صرف چار فیصد کالج جاتے ہیں جبکہ چھیانوے فیصد اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں باقی چار فیصد میں سے ستر فیصد آرٹس اور تیس فیصد سائنس مضامین رکھتے ہیں،ڈگری ہولڈر میں سے چالیس فیصد سے زائد بے روزگار ہیں اور جو بر سرروزگار ہیں ان کی آمدنی بھی اخراجات کی نسبت لگ بھگ ستر فیصد کم ہے،ہمارے ستر لاکھ افراد دوسرے ممالک میں ملازمتیں کر رہے ہیں جن میں سے کم از کم ساٹھ فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے یہ نوجوان زیادہ تر فنی تعلیم کے کم مدت دورانیے کے کورس کرکے بیرون ممالک اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، دنیا میں مسلمانوں کی آبادی24فیصد اور وسائل40فیصد ہیں،وقت کا تقاضا ہے کہ ان فنی کاریگروں کی قومی و صنعتی سطح پر ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ ان نوجوان بچوں اور بچیوں میں فنی تعلیم و تربیت کے حصول کا شوق بڑھے،علم و ہنر کی اہمیت قرآن مجید میں بھی واضح کی گئی ہے بلکہ جناب رسول خداﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنے کیلئے چین بھی جانا پڑے تو جا?،چینی زبان میں مثال ہے کہ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھا?،اس سے وہ خود کفیل ہو گا۔حضور ﷺ کے طر ز ز ند گی پر عمل کر کے دو نو ں جہا نو ں میں کا میا ب ہو سکتے ہیں آچھا اخلا ق ہی کا میا بی کی کنجی ہے جس کے پا س تعلیم ہو اور اخلا ق سے عا ر ی ہو وہ معا شر ہ میں کبھی بہترین انسا ن کے طو ر پر نہیں پہچا ناجا ئے گا۔جھنگ پسماندہ علاقہ ضرور ہے لیکن بچیوں کے حوالے سے سکلز کی تعلیم دینے والا جھنگ میں واحد ادارہ صنعت زار (ڈسٹرکٹ انڈسٹریل ہوم) جس کی بنیاد 1979ئمیں رکھی گئی اس کے کئی سربراہ آئے اور ہنر کی تعلیم بچیوں کو دیتے رہے مگر جب سے جھنگ کے سپوت سوشل ایکٹیوسٹ جناب اظہر عباس عادل نے بطور ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر و بیت المال کا چارج سنبھالا جو آج کل بطور ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر کے طور پر محکمہ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اگر ان کی تعریف نہ کی جائے تو یہ بھی بدیانتی ہو گی کیونکہ ایسے آفیسران صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں حالانکہ جھنگ کی مٹی پہلے بھی زرخیز اور محبتوں کی سر زمین کہلاتی ہے نے چارج لیتے ہی جھنگ کی دختران کیلئے پہلے سے موجود ادارہ صنعت زار کو ایڈوائزری کمیٹی کے تعاون سے اتنی محنت کی کہ آج ہر گھر میں ایک نہ ایک بچی ضرور ہنر سے روشناس ہے خواہ وہ بیوٹیشن،سلائی،کڑھائی،کمپیوٹر،اڈا ورک و دیگر سکلز میں مہارت حاصل کرکے اپنے گھر میں والدین کا ہاتھ بٹا رہی ہیں بلکہ کچھ تو طالبات اسی ادارہ میں جاب کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ریجن،زونل اور پنجاب بھر میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے یہ نہ صرف ایک آفیسر کا کام ہے بلکہ اس میں ان کی ایک مکمل ٹیم نیٹ ورک ہے جس میں ایڈوائزری کا بہت اہم رول ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ادارے کا ہیڈ یعنی منیجرصنعت زار کابھی رول ہے اگر اس کا نام بھی نہ لیا جائے وہ بھی نا مناسب ہے میری مراد جناب محمد فاروق بٹ جہنوں نے بھی دن رات محنت کرکے اس ادارے کی سرگرمیاں کو بحال رکھا اور ان سے قبل چوہدری محمد اشرف نے اس کی بنیاد رکھی جو بعد میں ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر جھنگ اور فیصل آباد رہے اور آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے ساتھ ساتھ اس محکمہ کے دیگر افسران و دیگر عملہ کی بھی ہمہ وقت محنت اور کاوش شامل رہی اور اس کے علاوہ ایڈوائزری کمیٹی کے ممبران اور سول سوسائٹی کی گراں قدر خدمات قابل ستائش ہیں آج اس ادارے کی سینکڑوں طالبات ہنر حاصل کرنے کے بعد اپنے روزگار کے ذریعے اپنے خاندان کا سہارا بنی ہوئی ہیں اس میں این جی اوز اور مخیرحضرات کا بھی اہم کردار رہا ہے بیٹیاں ماں باپ کا فخر اور مان ہوتی ہیں اور باپردہ اپنے گھر اور اداروں کام کرکے والدین کا ہاتھ بٹا رہی ہیں عورت کے پاس فنی تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ عملی زندگی میں میں اکثر ناکامی ہوتی ہے اور عورت کو ایک نسل کی تیاری کیلئے اس کے پاس فنی تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے ہنر ایک ایسا فن ہے جو غربت کے اگے ایک دیوارہے کسی ایک کو بھی ہنر سیکھانا اجر عظیم ہے ہنر سیکھنے بعد اسے معاشرے میں بھی عام کریں تا کہ ناخواندگی کو بذریعہ مہارت خواندہ بنایا جا سکتا ہے آج کل فنی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان کا مستقبل بھی فی تعلیم سے جڑا ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کو لکھنے اور بیان کرنے سے دل میں ایک خیال یہ ضرور آتا ہے کہ ایسا کرنے میں ان افسران کی دلچسپی آخر کیوں۔ وہ اس لیے کہ جب گھر کا سربراہ نیک اور دیانتدار اور محب وطن ہو تو ادارے خود بخود سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں میری مراد جھنگ کے ڈپٹی کمشنر حافظ شوکت علی جن کی بدولت آج جھنگ کی بچیاں فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھائی دیتی ہیں ان کو جھنگ کی کی غریب عوام اور ہنر مند بچیوں کے والدین سلوٹ پیش کرتے ہیں جہنوں ان کے گھریلو حالات بدلنے میں خاطر خواہ کوشش کی۔۔۔فرمان رسول محمد اکرم ﷺ ہے۔ '”جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے وجود پر صبر کرے انہیں کھلائے پلائے اور اپنی طاقت کے مطابق پہنائے تو قیامت کے دن وہ تینوں اس کیلئے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائیں گی۔”آخر میں اس شعر کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرکے اجازت چاہوں گا۔۔۔
وقت سب کو ملتا ہے زندگی بدلنے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔لیکن زندگی دوبارہ نہیں ملتی وقت بدلنے کیلئے۔
Mc B.S part III roll no 55 HAMID SHAH 

No comments:

Post a Comment