Wednesday 12 February 2020

Faiza Majeed Feature Urdu

Contents not checked
موت نے خاندان کو  غربت میں جھونک دیا

 فائزہ مجید
Faiza Majeed Feature Urdu BS- 46
روشنی کی کرن جینے کی امید دیتی اور جب کسی دن وہ روشنی کی کرن اچانک بجھ جائے تو دم گھٹنے لگتا ہے جینے کی امید دم توڑ  دیتی ہیں، کہتے ہیں بیٹے گھر کا وہ چراغ ہوتے ہیں جن کو اپنے پورے گھر روشن رکھنا  ہوتا ہے.زندگی اور موت کا کھیل تو صدیوں سے چلا آ  رہا ہے بہت سے لوگ آکر چلے گئے پر کچھ واقعے ایسے ہوتے ہیں جو پورے شہر کی آنکھیں نم کر جاتے ہیں ایک ایسے ہی دولت پور  نامی قصبے میں ایک غریب اور بدنصیب خاندان سے ملاقات کی جہاں ایک کچہ مکان ان کے حالات کی خستگی کو ظاہر کررہا  تھا باہر کے درازے پر لٹکا پھٹا اور کئی پیوند دار پردا  ان کے گھر کے کئی راز  اور حالات چھپانا چاہتا ہو،گھر کے آنگن میں چارپائی پر  بیٹھی بوڑھی عورت رلی بنا رہی تھی  اس کے چہرے پر  چشمہ لگا ہوا جس کی ایک ڈنڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر بہت سلیقے سے دھاگے سے جوڑ رکھا تھا صحن میں گھومتی ہوئی ایک بہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جو بچے جو مٹی کے کھیل میں اس قدر مصروف  تھے کہ باقی دنیا کی کوئی فکر نہ تھی  سردی اپنے عروج پر تھی  یہ بچے ننگے پیر اور مل مل کے پھٹے کپڑوں میں تھے۔
جب اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ اس مہنگائی میں گھر کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے؟ اور بیٹے کیا کرتے ہیں آپ کے؟ اس  سوال نے جیسے ان کے سارے زخم ہرے کر دیے اور وہ بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہا کوئی نہیں ہے، یوں لگ رہا تھا کہ کلیجہ نکل کر ہاتھ میں آجائے گا  بوڑھی عورت کو اس کی بیٹی نے تسلی دی اور آنسو صاف کیے اور بتا یا کہ پچھلے آٹھ ماہ میں ہم پر وہ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ ہمارے گھر کو بکھیر کر رکھ دیا، اب فقط رلی بنا کر ہی پیٹ کی آگ بجھتی ہے 
بوڑھی عورت بیچ میں بولی جوان بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر مر گیا۔ پوتا تھوڑا بڑا ہوا  تو  اس نے محنت مزدوری شروع کردی ماں صبح فجر میں آٹھ کر شاہنواز کو چاٹ بنا کر دیتی اور پھر وہ گلی کے اُس کونے میں بیٹھ جاتا جہاں سے لوگوں کا زیادہ گزرنا ہوتا۔یہ بچہ تھا جو بچپن میں ہی بڑا ہوگیا تھا جس نے کم عمر میں ہی اپنے خوابوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالنے اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگ گیا  تھا.بوڑھی عورت کا کہنا تھا کہ شاہنواز کو دیکھ کے محسوس ہوتا تھا کہ اچھے دن اب دور نہیں،اس وقت جو اس بوڑھی عورت کے چہرے پر خوشی تھی اس کی الگ ہی چمک تھی پر ساتھ ہی ساتھ آنسوں بھی جاری تھے یہ وہ لمحہ تھا جب ان کے جزبات کو سمجھنا بہت مشکل رہا،ان کی آنکھوں میں کئی ٹوٹے خواب ادھوری خواہشات نظر آرہی تھی باپ کے سائے محروم شاہنوازاپنے بہن بھائیوں کے لیے باپ کا  ہی کردار  ادا کر رہا تھا،گھر والوں سے معلوم ہوا کہ شاہنواز کا ایک بہت اچھا اور گہرا دوست ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا۔میں نے شاہنواز کے دوست سے قاسم سے ملاقات کی جو اس گلی میں ہی رہتا تھا 
جب میں نے اس سے شاہنواز کے بارے میں پوچھا تو چہرے پر افسردگی،جھکی نظریں دوست کو کھودینے کا غم ظاہر کر رہا تھا قاسم نے بتایا کہ شاہنواز بہت محنتی خوش مزاج اور  زندہ دل لڑکا تھا جس نے اپنے پورے گھر کو سنبھال رکھا تھااور بتایا کہ شاہنواز کسی لڑکی کو بھی پسند کرنے لگا تھا پر شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھاقاسم نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا کہ یاد ہے مجھے وہ دن اس دن گھر میں دادی اور اس کی امی کا جھگڑا ہو رہا تھاپیسوں کے اوپر دوکان داروں کا قرض دینا ہے اور سارے پیسے بچوں کی فیس میں چلے جاتے ہیں شاہنواز صلح کرواتے ہوئے کہتا ہے آج کے کام کے بعد پیسے ملیں گے اس سے ہم قرضہ اُتار دیں گے دادی اور پھر دادی اور امی سے اجازت لے کر نکلتا ہے ماں پیچھے سے آواز دیتی بیٹا جلدی آجانا تیرے پسند کا کھانا پکایا ہے شاہنوازجواب میں کہتا ہے جی امی بس پانچ منٹ میں واپس آیا  یہ بول کر نکل جاتا ہے۔ سردیوں کی وہ شام بہت اداس تھی ہر کام روز کے  معمول کے مطابق ہورہا تھا ماں لکڑیوں پر دودھ گرم کر ہی تھی دادی رلی بنا رہی تھی چھوٹے بہن بھائی دادی کی مدد کر رہے تھے۔
شاہنواز سنگ مرمر کی گھسائی کے لیے پہنچتا ہے گھر کے مالک چھت پر چائے پی رہے تھے شاہنواز سلام  کر کے اپنے کام میں لگ گیا پانی سے بھرا ہوا فرش اور ننگے پیر بجلی کی مشین سے کام کرتا ہوا شاہنواز،  راستے سے گزرتے ہوئے  آدمی نے آواز دی ار ے بیٹا پیروں میں کچھ پہن لو  اور تار پانی میں میں پڑا ہے احتیاط سے نکال لو شاہنواز مسکراتے ہوئے کہتا ہے جی چچا ابھی کرتا ہوں یہ سنتے ہی وہ آدمی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے. کچھ دیر بعد ہی نہ جانے کس تار سے اس کو کرنٹ لگتا ہے کہ نہ اس کے منہ سے چیخ نکلتی ہے نہ کوئی آواز بس تڑپ تڑپ کر آنکھوں میں خواب اور گھر والوں کی فکر لیے مر جاتا ہے،اس طرف ماں کے دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے 
مالک مکان اپنے بیٹے کے ہاتھ شاہنواز کی مزدوری بھیجتا ہے تو اس کا بیٹا شاہنواز کو زمین پر پڑا دیکھ کر سب کہ آواز دیتا ہے پھر پاس کے ہسپتال لے جانے پر معلوم ہوتا ہے کے اس نے ایک گھنٹے پہلے ہی دم توڑ دیا ہے، دوسری طرف ماں پریشان ہورہی تھی کہ بیٹا اب تک نہیں آیا ماں ابھی سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ماں دوڑتے ہوئے گئی کے میرا بیٹا آگیا دروازہ کھولتے ہی اس ماں کی سانس روک گئی پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب اس نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی جس کو اپنے پیروں پر آنا تھا اب وہ چار کندھوں آیا ہے ما ں تیز تیز رونے لگتی ہے تو پورے گھر میں ُقہورام مچ جاتا ہے  شہر میں سناٹا  چھا  جاتا ہے ماں اپنے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر روتی ہے اور یاد کرتی ہے وہ وقت جب اپنے لخت جگر کو گھر سے جانے دیا۔چھوٹے بہن بھائی شاہنواز کو کفن میں لپٹا دیکھ کر اپنی دادی سے پوچھتے ہیں کہ بھائی کو کیا ہوا ہے اور آنسوں بہہ رہے تھے اس گھر میں قیامت برپا ہوگئی تھی۔اس دن ماں بیٹے کی جدائی برداشت نہ کر پائی ا ور دماغی توازن کھو بیٹھی قاسم کے الفاظ میرے دل میں لگ رہے تھے اور قاسم کی آنکھیں نم ہوچکی تھی۔آٹھ ماہ گزر چکے تھے شاہنواز کی موت کو،اس دوران ان سے ان کا گھر چھن گیا اپنوں کے ہی ہاتھوں بہن بھائیوں کو پڑھائی چھوڑ نی پڑگئی اب یہ لوگ ایک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں ایک بار پھر زندگی انھیں اُس ہی غربت میں لے آئی جہاں سے ان کی زندگی شروع ہوئی تھی۔      



Feature Faiza Majeed BSIII Roll No 46 Urdu


Contents not checked
Ur class roll number, what category of writing is this 
موت نے خاندان کو  غربت میں جھونک دیا 
فائزہ مجید
روشنی کی کرن جینے کی امید دیتی اور جب کسی دن وہ روشنی کی کرن اچانک بجھ جائے تو دم گھٹنے لگتا ہے جینے کی امید دم توڑ  دیتی ہیں، کہتے ہیں بیٹے گھر کا وہ چراغ ہوتے ہیں جن کو اپنے پورے گھر روشن رکھنا  ہوتا ہے.زندگی اور موت کا کھیل تو صدیوں سے چلا آ  رہا ہے بہت سے لوگ آکر چلے گئے پر کچھ واقعے ایسے ہوتے ہیں جو پورے شہر کی آنکھیں نم کر جاتے ہیں ایک ایسے ہی دولت پور  نامی قصبے میں ایک غریب اور بدنصیب خاندان سے ملاقات کی جہاں ایک کچہ مکان ان کے حالات کی خستگی کو ظاہر کررہا  تھا باہر کے درازے پر لٹکا پھٹا اور کئی پیوند دار پردا  ان کے گھر کے کئی راز  اور حالات چھپانا چاہتا ہو،گھر کے آنگن میں چارپائی پر  بیٹھی بوڑھی عورت رلی بنا رہی تھی  اس کے چہرے پر  چشمہ لگا ہوا جس کی ایک ڈنڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر بہت سلیقے سے دھاگے سے جوڑ رکھا تھا صحن میں گھومتی ہوئی ایک بہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جو بچے جو مٹی کے کھیل میں اس قدر مصروف  تھے کہ باقی دنیا کی کوئی فکر نہ تھی  سردی اپنے عروج پر تھی  یہ بچے ننگے پیر اور مل مل کے پھٹے کپڑوں میں تھے۔
جب اس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ اس مہنگائی میں گھر کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے؟ اور بیٹے کیا کرتے ہیں آپ کے؟ اس  سوال نے جیسے ان کے سارے زخم ہرے کر دیے اور وہ بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہا کوئی نہیں ہے، یوں لگ رہا تھا کہ کلیجہ نکل کر ہاتھ میں آجائے گا  بوڑھی عورت کو اس کی بیٹی نے تسلی دی اور آنسو صاف کیے اور بتا یا کہ پچھلے آٹھ ماہ میں ہم پر وہ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ ہمارے گھر کو بکھیر کر رکھ دیا، اب فقط رلی بنا کر ہی پیٹ کی آگ بجھتی ہے 
بوڑھی عورت بیچ میں بولی جوان بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر مر گیا۔ پوتا تھوڑا بڑا ہوا  تو  اس نے محنت مزدوری شروع کردی ماں صبح فجر میں آٹھ کر شاہنواز کو چاٹ بنا کر دیتی اور پھر وہ گلی کے اُس کونے میں بیٹھ جاتا جہاں سے لوگوں کا زیادہ گزرنا ہوتا۔یہ بچہ تھا جو بچپن میں ہی بڑا ہوگیا تھا جس نے کم عمر میں ہی اپنے خوابوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالنے اور ان کی خواہشات کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگ گیا  تھا.بوڑھی عورت کا کہنا تھا کہ شاہنواز کو دیکھ کے محسوس ہوتا تھا کہ اچھے دن اب دور نہیں،اس وقت جو اس بوڑھی عورت کے چہرے پر خوشی تھی اس کی الگ ہی چمک تھی پر ساتھ ہی ساتھ آنسوں بھی جاری تھے یہ وہ لمحہ تھا جب ان کے جزبات کو سمجھنا بہت مشکل رہا،ان کی آنکھوں میں کئی ٹوٹے خواب ادھوری خواہشات نظر آرہی تھی باپ کے سائے محروم شاہنوازاپنے بہن بھائیوں کے لیے باپ کا  ہی کردار  ادا کر رہا تھا،گھر والوں سے معلوم ہوا کہ شاہنواز کا ایک بہت اچھا اور گہرا دوست ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا۔میں نے شاہنواز کے دوست سے قاسم سے ملاقات کی جو اس گلی میں ہی رہتا تھا 
جب میں نے اس سے شاہنواز کے بارے میں پوچھا تو چہرے پر افسردگی،جھکی نظریں دوست کو کھودینے کا غم ظاہر کر رہا تھا قاسم نے بتایا کہ شاہنواز بہت محنتی خوش مزاج اور  زندہ دل لڑکا تھا جس نے اپنے پورے گھر کو سنبھال رکھا تھااور بتایا کہ شاہنواز کسی لڑکی کو بھی پسند کرنے لگا تھا پر شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھاقاسم نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا کہ یاد ہے مجھے وہ دن اس دن گھر میں دادی اور اس کی امی کا جھگڑا ہو رہا تھاپیسوں کے اوپر دوکان داروں کا قرض دینا ہے اور سارے پیسے بچوں کی فیس میں چلے جاتے ہیں شاہنواز صلح کرواتے ہوئے کہتا ہے آج کے کام کے بعد پیسے ملیں گے اس سے ہم قرضہ اُتار دیں گے دادی اور پھر دادی اور امی سے اجازت لے کر نکلتا ہے ماں پیچھے سے آواز دیتی بیٹا جلدی آجانا تیرے پسند کا کھانا پکایا ہے شاہنوازجواب میں کہتا ہے جی امی بس پانچ منٹ میں واپس آیا  یہ بول کر نکل جاتا ہے۔ سردیوں کی وہ شام بہت اداس تھی ہر کام روز کے  معمول کے مطابق ہورہا تھا ماں لکڑیوں پر دودھ گرم کر ہی تھی دادی رلی بنا رہی تھی چھوٹے بہن بھائی دادی کی مدد کر رہے تھے۔
شاہنواز سنگ مرمر کی گھسائی کے لیے پہنچتا ہے گھر کے مالک چھت پر چائے پی رہے تھے شاہنواز سلام  کر کے اپنے کام میں لگ گیا پانی سے بھرا ہوا فرش اور ننگے پیر بجلی کی مشین سے کام کرتا ہوا شاہنواز،  راستے سے گزرتے ہوئے  آدمی نے آواز دی ار ے بیٹا پیروں میں کچھ پہن لو  اور تار پانی میں میں پڑا ہے احتیاط سے نکال لو شاہنواز مسکراتے ہوئے کہتا ہے جی چچا ابھی کرتا ہوں یہ سنتے ہی وہ آدمی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے. کچھ دیر بعد ہی نہ جانے کس تار سے اس کو کرنٹ لگتا ہے کہ نہ اس کے منہ سے چیخ نکلتی ہے نہ کوئی آواز بس تڑپ تڑپ کر آنکھوں میں خواب اور گھر والوں کی فکر لیے مر جاتا ہے،اس طرف ماں کے دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے 
مالک مکان اپنے بیٹے کے ہاتھ شاہنواز کی مزدوری بھیجتا ہے تو اس کا بیٹا شاہنواز کو زمین پر پڑا دیکھ کر سب کہ آواز دیتا ہے پھر پاس کے ہسپتال لے جانے پر معلوم ہوتا ہے کے اس نے ایک گھنٹے پہلے ہی دم توڑ دیا ہے، دوسری طرف ماں پریشان ہورہی تھی کہ بیٹا اب تک نہیں آیا ماں ابھی سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ماں دوڑتے ہوئے گئی کے میرا بیٹا آگیا دروازہ کھولتے ہی اس ماں کی سانس روک گئی پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب اس نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی جس کو اپنے پیروں پر آنا تھا اب وہ چار کندھوں آیا ہے ما ں تیز تیز رونے لگتی ہے تو پورے گھر میں ُقہورام مچ جاتا ہے  شہر میں سناٹا  چھا  جاتا ہے ماں اپنے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر روتی ہے اور یاد کرتی ہے وہ وقت جب اپنے لخت جگر کو گھر سے جانے دیا۔چھوٹے بہن بھائی شاہنواز کو کفن میں لپٹا دیکھ کر اپنی دادی سے پوچھتے ہیں کہ بھائی کو کیا ہوا ہے اور آنسوں بہہ رہے تھے اس گھر میں قیامت برپا ہوگئی تھی۔اس دن ماں بیٹے کی جدائی برداشت نہ کر پائی ا ور دماغی توازن کھو بیٹھی قاسم کے الفاظ میرے دل میں لگ رہے تھے اور قاسم کی آنکھیں نم ہوچکی تھی۔آٹھ ماہ گزر چکے تھے شاہنواز کی موت کو،اس دوران ان سے ان کا گھر چھن گیا اپنوں کے ہی ہاتھوں بہن بھائیوں کو پڑھائی چھوڑ نی پڑگئی اب یہ لوگ ایک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں ایک بار پھر زندگی انھیں اُس ہی غربت میں لے آئی جہاں سے ان کی زندگی شروع ہوئی تھی۔      

No comments:

Post a Comment