Sunday 26 January 2020

Sonia Shaikh BS Roll 144 Article Urdu

Selected for Roshni 1st issue
 فائیل کے اند ر نہ آپ کا رول نمبر ہے اور نہ کلاس
  فائیل کا نام بھی غلط ہے۔ مسلسل فیس گروپ پر سمجھانے کے باوجود ایسا کیوں؟ 
File name should be Article- Sonia- BS-Roll 144 
ہندسے تبدیل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے غلطی ہو سکتی ہے

موئن جودڑو کی زبان جاننے کے لیے کی گئی کانفرنس

۲۶ صدی قبل مسیح ضلح لاڑکانہ سے ۲۸ کلومیٹر دور سندھو دریا کے مغرب میں ایک تہذیب موجود تھی      ۔ جو ۰۰۹۱ قبل مسیح زوال کی ضد میں آکر ایک کھنڈر کی شکل اختیار کر بیٹھی۔ کئی ریسرچز کے باوجود آرکالاجسٹ اس شہر کا اصل نام معلوم نا کر سکے۔ اس جگہ کا نام موئن جو دڑو کسی تحقیق کے مطابق نہیں رکھا بلکہ یہ وہاں کے مقامی لوگوں نے رکھا کیوں کہ اس زمین کے نیچے ایک پورا شہر دفن ہے۔
۰۰۷۳ سالوں تک اس جگہ پر کوئی کام نہ کیا گیا۔ ۹۱۹۱۔۰۲۹۱ میں آرکیالاجسٹ رکھل داس بنرجی نے یہاں کا جائزہ لیا۔ پھر کاشی ناتھ نارائن ڈکشٹ نے ۴۲۹۱۔۵۲۹۱ میں کھدائی کی۔۵۲۹۱۔۶۲۹ ۱ تک جان مارشل نے وہاں ریسرچ کی۔ جس کے بعد ۰۳۹۱ میں ایک بڑی کھدائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں ایک سے زیادہ آرکیالاجسٹ شامل تھے۔ ۴۶۹۱۔۵۶۹۱ میں اس سلسلے کی آخری کھدائی کی گئی۔ جس کے بعد موئن جو دڑو کی کھدائی منصوخ کی گئی۔کیوں کہ اس ریسرچ کے سلسلے سے اس جگہ کو بڑا نقصان پہنچ رہا تھا۔۰۸۹۱ ایک جرمن اور ایک اٹیلین آرکیالاجسٹ نے مقامی تکنیک کا استعمال کر کے دوبارہ ریسرچ کی۔
ان تمام تر تحقیقوں کا مقصد وہاں کی تہذیب کا علم حاصل کرنا تھا۔آج تک وہاں کی تہذیب کا کوئی بھی صحیح سے اندازہ نہ لگا سکا۔ کیوں کہ ہنوز آرکیالاجسٹ کو موئن جو دڑو کی زبان کا علم حاصل نہیں ہوسکا۔بلاشبہ،زبان ایک ذریعہ ہے جس سے ہم کسی تہذیب کی ثقافت،رہن سہن،عقائد اور رسم و رواج کو جان سکتے ہیں۔ زبان ہی ایک ایسا ذریعہ ہے، جس سے ہم نہ صرف ایک تہذیب کا اظہار خیال سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس کی تاریخ بھی جان سکتے ہیں۔
ان تمام ریسرچز سے کچھ باتوں کا علم ہوا۔جیسے کے وہ ایک بڑا میٹروپولیٹن شہر تھا۔جہاں تحقیق کے مطابق ایک مرکزی مارکیٹ تھی،۰۰۷ کنویں،نکاسیء آب اور نہانے کا منظم انتظام تھا، راستوں اور عمارتوں کی بناوت سے ان کی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کھدائی کے دوران وہاں سے کئی زیورات، برتن،سونا، گھر میں استعمال ہونے والے سامان اور کچھ مجسمے بھی ملے، جن میں ایک ماں دیوی، پادریوں کے سردار اور رقاصہ کے مجسمے شامل ہیں۔تحقیق میں کئی ایسی چیزیں بھی ملیں، جن پر کچھ علامتیں یا تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ نہ صرف سونااور پتھر تراشنے میں ماہر تھے بلکہ وہ لکھنے کا بھی علم رکھتے تھے۔
حا ل ہی میں شعبۂ ثقافت کے سیکریٹری اکبر لغاری اور ڈی۔جی  منظور احمد قناصرو نے تین دن کی ورکشاپ کے متعلق کانفرنس کی۔اس ورکشاپ میں موئن جو دڑو کی زبان جاننے کے لیے عالمی سطح پر تاریخی نوادرات کا مطالعہ کرنے کے لیے مختلف ممالک کے ماہرین تحقیق شامل تھے۔یہ ورکشاپ ۹ جنوری ۰۲۰۲ سے ۱۱ جنوری ۰۲۰۲ تک جاری رہی۔اس ورکشاپ میں مختلف ماہرین تحقیق نے اپنے تحقیقی مقالمے پیش کیے۔ تحقیق میں موئن جو دڑو کی نقش نگاری، تکنیک اور انداز پر بحث ہوا۔
ڈاکٹر گریک جیمسن نے اپنا تحقیقی مکالمہ تین مختلف مہرون پر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مہریں کسی جگہ پر ایک جیسی ملتی ہیں اور کہیں بلکل مختلف، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کو لکھنے کا علم تھا۔ ڈاکٹر ڈینیز فرینز کی تحقفق کے مطابق مٹی کے مختلف برتوں اور سامان پر مختلف علامتیں موجود تھیں،جو شاید وہاں کی ضابطتگی اور انتظامی مقصدوں کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹر نشا یادیو نے انفرادی طور پر اپنی تحقفق پیش کی۔انہوں نے کہا کہ انڈس اسکرپٹ اپنی ساخت میں لسانی ماڈل ہے۔تحقیق کے بعدسامنے آنے والی چیزوں سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ نقش نگاری اور علامتیں بامقصد ہیں۔ جو وہاں کی سماجی انتظام اور قانون کی عکاسی کرتا ہیں۔
ریسرچ کے آخری روز کانفرنس میں حتمی نتائج پیش کیے گئے اور عالمی سطح پر کی گئی ورکشاپ موئن جو دڑو کی زبان جانے بغیر اختتام پزیر ہوئی۔اس کانفرنس میں یہ بتایا گیا کہ اس تاریخی مقام پر ریسرچ کرنے کے لیے دس سال بھی کم ہیں۔ یہ تاریخی مقام بہت بڑے تحقیقی خزانے سے بھرا ہوا ہے۔آمریکی ماہر جوناتھن مارک کنائر کے مطابق موئن جو دڑو کی زبان جاننے کے لیے، پہلے قدیم زمانے کی دو زبانوں کا بوقت مطالعہ کرنا چاہیے، پھر کوئی نتیجا اخذ کیا جا سکتا ہے۔اس کانفرنس کے اختتام میں ڈاکٹر کلیم اللہ نے طویل خطاب کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں عالمی سطح پر پروگرامز کرنے کی تجویز دی اور تحقیق کو کتاب کی شکل دینے کا خیال پیش کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جدید تحقیقی ریسرچ کے قاعدے اور اصول متعارف کرنے اور تمام قدیمی نوادرات کا رکارڈ کمپیوٹرائیز کرنے کی اپنی رائے پیش کی۔
موئن جو دڑو کی تاریخ جاننے کے ساتھ حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کے ان تمام قیمتی نوادرات کی حفاظت کریں۔کیوں کہ آج تک موئن جو دڑو، جو ۰۰۳ ہیکٹرز پر مشتمل ایک شہر ہے، کی ۰۱ فیصد کھدائی کرنے سے بیشمار قیمتی نوادرات ملے ہیں۔اگر ۰۹ فیصد اور کھدائی کی گئی تو اس نوادرات کے خزانے کو محفوظ کرنے کے لیے بھی حکومت کو بہتر اقدامات اٹھانے چاہیے۔ 





No comments:

Post a Comment