Tuesday 28 January 2020

Mohsin Raza- BS 86 - Article Urdu Referred back

Whose piece is this? Bin Hadi or Mohsin Raza?
File name is wrong
writer's name is not mentioned in the text file.
Take note for future 
Its too long, make it 650 words
Referred back
''نااہل ملازم''

آج کل جھاں پاکستان کا ہر دوسرا شخص سرکاری ملازمت کے لئے پریشانی سے دوچار ہے علم اور اہلیت ناقدری کا شکار ہے
ہر صوبے سے بیروزگاری کے نارے بُلند ہو رہے ہیں تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان لاچاری کے مارے مزدوری کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں ایک طرف جھاں اہلیت و قابلیت نظراندازی کا شکار ہے تو دوسری طرف وہیں سرکاری شعبوں میں بہت سے نااہل لوگ ملازمتوں سے نوازے ہوئے ہیں 
لا شعور اور نااہل لوگ صرف اور صرف سفارشی طاقتوں اور پیسؤں کے دم پر ملازمتیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں 
حالات کچھ ایسے ہیں کے یہاں بھترین CGPA کے ساتھ گریجویشن مکمل کرنے والے غریب لڑکے مجھے ہوٹلوں پر ویٹر کی نوکری کرتے نظر آتے ہیں جن شاگردوں کی قابلیت اکثر ان کے اپنے استادوں کو بھی حیران کر دیتی تھی جن پر اپنے استاد ناز کیا کرتے تھے جو لڑکے سٹیج پر آکر ڈائیس پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنا سر اٹھا کر فر فر انگلش بولا کرتے تھے آج حالات نے ان کے ہاتھوں میں چائے اور کھانے کی ٹرے تہما دی ہے اور ان کی زبان پر بس اب ایک ہی جملا رہ گیا ہے ''جی صاحب کیا لینگے چائے یا کھانا''؟ یونیورسٹی میں دوستوں کے بیچ جب کنٹین پر چل کر کچھ کھانے کی بات ہوتی تھی تو جو لڑکے اس بات کو ٹال دیا کرتے تھے اور کبھی بھی کنٹین پر نہیں جاتے تھے فقط بل دینے کے خیال سے وہ گھبراتے تھے اپنی پڑھائی کے واسطے پیسؤں کو بچاتے تھے بیشک اپنے حساب سے یہ کام تو بڑا اچھا وہ کرتے تھے مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے وہ ابھی تک کچھ ڈھنگ کا نہیں کھا پاتے ہیں جس پڑھائی کے لئے وہ پیسؤں کو بچایا کرتے تھے وہ پڑھائی تو کب کی مکمل ہو چکی مگر اب بھی وہ صرف دو چیزوں کے علاوہ کبھی کچھ کھاتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں یا تو ہوٹل کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے کبھی لوگوں کا بچایا ہوا جھوٹا کھاتے نظر آتے ہیں یا تو کبھی کسی سر پہرے بگڑے رئیس کی ڈانٹ کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہیں اس ہی معشرے میں نظر گہمائی جائے تو کافی سرکاری اداروں میں مجھے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کو انگلش میں اپنا نام بھی دو دفعا سوچ کر پھر لکھنا پڑتا ہے ایسے نااہل لوگ بھی یھاں اچھی ملازمتوں پر فائز ملتے ہیں ہر روز یہاں نیوز چینلز میں ایسی کئی خبریں میں نے نشر ہوتے دیکھی ہیں کبھی جن میں کسی نااہل سرکاری ڈاکٹر کی غفلت کا ذکر ہوتا ہے تو کبھی کسی پولیس والے کا خود کسی جرم میں مُلوًث ہونے کا ذکر ہوتا ہے کبھی کسی استاد کی اپنی شاگر کو حراساں کرنے کی خبر ہوتی ہے تو کبھی کسی سرکاری ملازم کی کرپشن میں مُلوًث ہونے کی خبر نظر آتی ہے اور بھی ایسی ہازار خبریں روزانہ ہمارے نیوز چینلز پر اور ہمارے اخباروں میں گشت کرتی نظر آتی ہیں جن سے ہمارے اس معشرے میں نااہل سرکاری ملازموں کی موجودگی کا خوب احساس ہوتا ہے
لوگوں کو جب گفتگو کرتے دیکھتا ہوں تو ان کی گفتگو کا عنوان اکثر یہ ہوتا ہے کے بھائی سرکار کچھ نہیں دیتی سرکار سے کچھ نہیں ملتا کاش سرکاری اسکولوں میں پڑھائی ہوتی کاش سرکاری اسکولوں میں صفائی ہوتی تو ہم بھی نجی اسکولوں کے جہنجھٹ سے بچ جاتے ہر ماہ اتنی فیس بھرنے سے بچ جاتے اب اسی بات پر اگر تھوڑا غور کیا جائے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لوگ تو بس سارا ملبہٰ گورمینٹ پر ڈال کر بات کر دیتے ہیں لیکن اگر بات کی گھرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ہر بات میں صرف گورمینٹ ہی قصور وار  نہیں ہے بلکہ کافی معملات میں سارا کا سارا قصور صرف نااہل ملازموں کا ہوتا ہے گورمینٹ ہمیں تعلیمی ادارے بنا کر دیتی ہے گورنمینٹ ہمیں تعلیمی اداروں کی مرمت کروانے کے لئے لاکھوں روپیؤں کی بجٹ دیتی ہے گورمینٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے تمام ملازموں کو اچھی تنخواہ دیتی ہے لیکن اس کے باوجود جب استاد اسکول میں کلاس لینے کے لئے جاتا ہی نہیں ہے تو اس ایک استاد کی وجہ سے انگلی گورمینٹ پر اٹھتی ہے جب اس اسکول کا چپراسی اس اسکول کی روزانہ صفائی نہیں کرتا کام چوری کا مظاہرا کرتا ہے تو اس ایک چپراسی کی نااہلی کی وجہ سے تمام گورمینٹ تعلیمی ادارے بدنامی کا شکار ہوتے ہیں گورمینٹ سالانہ فنڈ دیتی ہے لیکن وہ سارے پیسئے ادروں پہ خرچ ہونے کے بجائے اوپر ئی اوپر سے ہڑپ ہو جاتے ہیں لاکھوں روپے اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد پھر وہ ہی ملازمین شکایتیں کرتے ہیں کے ادرے کی بیلڈنگ ضعیف ہو چکی ہے فرنیچر خراب ہو چکا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں نئی بیلڈنگ دئی جائے خدارا اگر آپ حکومتی اعنات کے سارے پیسئے سرکاری عمارتوں کی بحالی اور ترقیاتی کاموں پر ایمانداری سے خرچ کریں تو یہ سرکاری عمارتیں کبھی اتنی جلدی ضعیف نہیں ہونگی گورمینٹ سے جو نعمتیں ملتی ہیں ملازموں کو چاہیئے کے ان نعمتوں کی قدر کریں آج کل عورت سرکاری ہسپتال میں اپنا بچہ پیدا کرنے کے لئے جانے سے کیوں گھبراتی ہے؟ فقط اس وجہ سے کہ یہاں ہر روز کسی ڈاکٹر یا کسی نرس کی غفلت کی کھانی کانوں کو سنائی دیتی ہے فلاں ہسپتال میں ایک ڈاکر کی غفلت کی وجہ سے ڈیلوری آپریشن کے دوران کنچی عورت کے پیٹ میں رہ جانے کی وجہ سے عورت فوت ہوگئی
ہمارے معاشرے میں تقریبن ہر محکمے میں نااہل ملازمین کی ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں مگر میں نے بلکل ہی عام سی مثالیں بیان کی ہیں جو ہر شخص نے اپنے درمیان زندگی میں کبھی نہ کبھی یقینن محسوس کی ہونگی اور اس سے زیادہ حیران کُن بات بھلا کیا ہو سکتی ہے کے ہمارے ملک کی تاریخ میں تو وزیراعظم پر بھی نااہلی کا الزام لگ چکا ہے بات کا خلصہ یہ ہے کے یہاں اعلیٰ افسران سے لے کر نیچلے حصے کے تمام اعملداروں تک نااہل ملازموں کی ہزاروں زندہ مثالیں سانس لے رہی ہیں مگر ہمارا پورا نظام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے میرے اپنے آس پاس ایسے کافی سرکاری ملازموں کی مثالیں موجود ہیں جو کبھی قسمتی اپنے ادارے میں بس چکر لگانے جاتے ہیں لکین وہ بھی ہر ماہ سرکاری خزانے سے تنخواہ پوری اٹھا رہے ہیں مگر افسوس ایسے ملازمین سے سرکاری اداروں کو کوئی بھی فاعدہ نہیں ہے بلکہ اندر ہی اندر ایسے لوگوں کی وجہ سے ہمارے سرکاری محکمے بس تباہی اور بدنامی کا شکار ہو رہے ہیں بس مختصرن اتنی گزارش ہے کے اب اس نظام کو ایک واضع تبدیلی کی بڑی شدید ضرورت ہے حکومت سے گزارش ہے کے ایک آپریشن کر کے تمام سرکاری محکموں سے  ہر اس شخص کو فارغ کر دیا جائے جو کام چور ہے ہر اس شخص کو ملازمت سے نکال دیا جائے جو بھی نااہل ملازم ہے اور ان ساری ملازمتوں کے لئے ایک میرٹ ٹیسٹ لیا جائے اور ملک کے قابل اور اہل نوجوانوں کو ملازمت کا موقع دیا جائے کتنے دُکھ کی بات ہے کے ہمارے یہاں پڑھے لکھے قابل نوجوان مذدوری کر رہے ہیں اور نااہل لوگ ملازمت کر رہے ہیں درحقیقت مذدوری تو نااہلوں کو کرنی چاہیئے کیوں کے ملازمتوں پر صرف اہلیت رکھنے والے نوجوان کا حق ہے یقینن ایسی واضع تبدیلی کا ہمارا ملک کب سے منتظر ہے دعا ہے خدا ہمارے ملک کو ایک دن ایسی تبدیلی نصیب فرمائے.



No comments:

Post a Comment