Sunday 1 March 2020

Sonia Shaikh Profile Urdu BS 144


Not checked
For profile providing foto is responsibility of writer
پروفائل۔ سونیہ شیخ۔ بی ایس رول نمبر144۔

مسز راجا کی تنہائی
زندگی خدا کی طرف سے دی ہوئی ایک عجیب بھید ہے۔ ہر انسان کو اپنی عرصہء حیات میں مختلف للکاروں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے، جس کا گہرا اثر ان کی طبعیت و مزاج پر پڑتا ہے۔انسان کے لیے کوئی بھی چیز حاصل کرنا ناممکن نہیں، بس غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔اپنے مقصد کو پانے کی لگن اور اسے حاصل کرنے کی جستجو اس کی مخصوص کہانی بن جاتی ہے۔جو اسے ہر ایک شخصیت سے منفرد کر تی ہے۔ اور وہ کہانی کسی کے لیے سبق اور کسی کے لیے عبرت کا باعث بنتی ہے۔ ہر انسان کی اپنی کہانی ہوتی ہے، اسی طرح سمیرہ کی بھی ایک اپنی کہانی ہے۔
سمیرہ ایک ایسی عورت کا نام ہے جوکسی مرد کے سہارے کی محتاج نہیں۔فقط ظاہری خوبصورتی نہیں بلکہ باطنی خوبصورتی کی بھی مالکن ہے۔ بات کرنے کا انداز ایسا ہے جسے ہم اپنے دوست سے بات کر رہے ہوں۔ مذاق کرو تو ہنساتی ہے، مگر غصہ بھی غضب ناک کرتی ہے۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کئی ایسی باتیں ہیں جو بولی نہیں جاسکتی مگر وہ چہرے سے عیاں ہیں۔
18جون سمیرہ کی پیدائش کے بعد آج تک انہوں نے اپنی زندگی میں بڑی مشکلاتوں کا سامنہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی بڑے کا سایہ اپنے سر پر زیادہ وقت نہیں دیکھا۔ رشتے میں جتنے بھی بزرگ تھے وہ ان کو بہت پہلے ہی اکیلا چھوڑ گئے۔ جب چودہ برس کی تھیں، ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ماں کی جدائی میں بڑی تکلیف میں رہتی تھی۔ کیوں کہ والدہ کے انتقال کے بعد پورا گھر بکھر گیا۔ روز کے جگڑوں اور گھر کے مسائل سے بچنے کے لیے والد نے سمیرہ کی 16 برس ہی میں شادی کردی۔ شادی کے بعد ان پر بہت ذمے داریاں آئیں۔ ساس کی صورت میں ان کو ماں کا پیار نصیب ہوا پر کچھ وقت کے بعد ان کا بھی سایہ سر سے ہٹ گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود کو سنبھالا اور اپنے گھر پر توجہ دی تاکہ اپنے گھر کے کام بخوبی انجام دے سکیں۔ سمیرہ کبھی کبھی ایسے ہی کارخانے میں جا کر اپنے شوہر سے باتوں باتوں میں کام سیکھتی تھی۔ اس کا فارغ وقت اپنے شوہر کے ساتھ کام سیکھتے ہی نکل جاتا تھا۔ وہ وقت ان کی زندگی کا بڑا خوبصورت وقت تھا جب ان کے پاس سب کچھ تھا اور خوش رہنے کی وجہ بھی تھی۔ مگر کام سکھتے وقت ان کو اس بات کا گمان بھی نا تھا کہ آگے چل کر ایک ایسا وقت آئے گا جب یہ خود پورا کاروبار چلائیں گی۔
چھ جون 2018 میں ان کی زندگی نے بڑا سخت موڑ لیا۔ ان کی زندگی میں ایسی تبدیلی آئی جس نے سمیرہ کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں بہت مصروف رہنے لگی ہیں۔اپنے گھر کے کام کے بعد صرف کاروبار میں مصروف رہتی ہے۔ یہ معاشرے میں ایک بڑی بردبار عورت کی مثال ہیں۔ جو اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہیں جو ان کے کارخانے کے اوپر بنا ہوا ہے۔ تقریبا دو سالوں سے وہ اپنا کاروبار سنبھالتی آرہی ہیں۔ شروعات میں ان کو اپنا کاروبار سنبھالنے میں بڑی مشکل ہوئی کیوں کہ اچانک سے پورا کاروبار سنبھالنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ لکڑی کا چھاپہ کوئی آسان کاروبار نہیں جو کوئی بھی اکیلے میں کر لے۔ پہلے لکڑی کی گسائی کی جاتی ہے۔ گسائی کے بعد کٹائی اور پھر اس پر چھاپہ بنایا جاتا ہے۔ جس کے بعد کراچی میں اس مال کو پہنچا کر لین دین کی جاتی ہے۔ یہ سارا کام عورت ذات ہوکر سمیرہ اکیلے میں کرتی ہے۔ یقینا کوئی بھی کاروبار سنبھالنا آسان نہیں ہے۔ پر ایسی مزدوری کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ لیکن سمیرہ یہ کام بھی اکیلے میں کرتی ہے۔ ناصرف یہی اپنے گھر کو  اور اپنے بچوں کو بھی خود سنبھالتی ہے۔ان کو اسکول، ٹیوشن اور مدرسہ پڑھانا ان کی ہی ذمے داری ہے۔ اپنے بچوں کو کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ان کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی ہر خوشی کا بھی پورا خیال رکھتی ہیں۔کبھی نانی کے یہاں لے جاکر انہیں باہر سیر و تفریح کروا لیتی ہے اور کبھی کسی تہوار میں لے جاتی ہے۔
سمیرہ ایک ایسی زندگی بسر کررہی ہے جس میں ان کا نہ کسی کے پاس اتنا آنا جاناہے نہ ہی کوئی ان کے پاس اتنا آتا جاتا ہے۔یہ اکیلے ہی پورے معاشرے کے خلاف اپنے اور اپنے بچوں کے خلاف اپنے حق کے لیے لڑتی ہے۔ انہیں کبھی کبھی کورٹ کے چکر کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھر میں بند کر کے جانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے کچھ لوگ تو ان سے گھر کا دروازہ بند کر جانے پر ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔اپنے ہوکر ان کی مجبوری سمجھتے نہیں الٹا اس پر طعنہ مارتے ہیں۔ سمیرہ ان تمام باتوں کو برداشت کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں لگی رہتی ہے۔ اب ان کی کوئی کاروبار چلانے پرطعنے دے یا گھر کو بندکر جانے پر اعتراض کرے ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس ان کا یہ یقین ہے کہ خدا نے اگر اس بڑی آزمائش میں رکھا ہے تو وہ ضرور اس کا اچھا اجر دے گا۔
سمیرہ کو دیکھ کر یقین نہیں ہوگا کہ وہ نوں گرد یتیمی بچوں کی ماں ہیں۔ اپنے بچوں کو کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیا اور اپنے گھر کو بکھرتے بکھرتے ہوئے سنبھالا۔ ان کو اپنے بچوں کو چھوڑ کر جانے کا خیال بھی نہیں آیا۔حالانکہ اس معاشرے میں اکیلے رہنا اور معصوم بیٹیوں اور بیٹوں کو سنبھالنا مشکل ہے۔ ان کو ہر وقت اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر رہتی ہے۔ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے بڑے ہوکر کامیاب ہوں کسی کے محتاج نہ بنیں۔ اس لیے وہ دن رات ان کے لیے محنت کرتی ہے۔نہ اپنے آرام کا خیال رکھتی ہیں نہ اپنی صحت کا خیال رکھتی ہے فقط ایک ہی فکر ان کو رہتی ہے کہ میرے بچے خوش و سلامت رہیں۔ کسی چیز کی کمی ان کو نہ رہے۔  

No comments:

Post a Comment