Sunday, 1 March 2020

Jawaria Zia - Urdu Profile BS 71 Not checked

Not checked

Profile_Jawaria Zia_BS_Roll 71


ایڈووکیٹ معراج الدین انصاری جسکوکبھی شکست نہیں ہوئی
   پچھتر سالہ معراج الدین کی یہ حالاتِ زندگی کہ سچ کی بنیادپرکیس لڑکرجیتنااورآج تک کوئی شکست نا حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کاانکی طرف مائل ہونااورلوگوں کی خدمت میں سرانجام دیناہے۔
پاکستان کے شہرکراچی کے سٹی کورٹ میں بیٹھنے والے اس کامیاب شخص ایڈووکیٹ معراج الدین نے لوگوں کوکے لیے اپنی کافی محنت ان پروقف کی۔بڑے بڑے وکیلوں کاان سے مشورہ کرنااورکیس کوہرحال میں سچ کی بنیادپرجیتناانکی خوبی رہی ہے۔یوں تواوربھی وکیل موجودہیں لیکن لوگوں کاانتخاب زیادہ ترانکاہی ہوتاہے۔کیونکہ لوگوں کوانکاطریقہ کارپسندآتاہے۔انکی خوبی کاباعث ہرکیس کوہینڈل کرناہے پھرچاہے وہ نیب کاکیس ہویاچیرمین کاانہوں نے کبھی بھی کسی کیس میں شکست نہیں کھائی۔
 بہت کم عمرمیں ہی انہوں نے اپنے والدکاسہارابننے کی کوشش کیں۔اپنے گھروالوں کے حالات کومدِنظررکھتے ہوئے انہوں نے محنت کرنے کاسوچااوراسی کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کوبھی جاری رکھا۔11سال کی عمرمیں انہوں نے اپنے گھروالوں کے آرام کے لیے بہت محنت کی جیسکہ آم،آلوبخاراورساتھ ہی سندل کاشربت بھی بیچااورپنی ماں کوروزکے دوروپے لاکردیاکرتے تھے۔اس وقت کے زمانے میں پیسہ کمانہ اتناآسان نہیں تھا۔انہوں نے اپنے گھروالوں کے لیے دن رات ایک کردیا۔اتنی چھوٹی عمرمیں اپنے گھروالوں کاسہارابنناکوئی معمولی بات نہیں تھی۔اسکے بعدمیٹرک کیااوراچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔پھرراولپنڈی واہ کینٹ میں ٹیچراورلیباٹری ایسسٹینٹ بھی رہے جسکی تنخواہ80روپے تھے۔اسکے بعدجیسے جیسے محنت کرتے رہے تنخواہ بھی105روپے ہوگئی پھرٹیچرکی حیثیت سے ایف-اے کاامتحان دیاکیونکہ اس زمانے میں پرائیوٹ نہیں دیاجاتاتھا۔پھرلاہورچلے آئے اورلاہورمیں آکرنیازی کالج میں داخلالیااورساتھ ہی نوکری کے سلسلے میں پھرتے رہے اسی کے ساتھ ساتھ واپڈامیں نوکری کی اورپھرایریگیشن ہیڈآفس میں بھی کام کیا۔اسی طرح دیگر محکموں میں انہوں نے محنت اورلگن سے کام کیاپھراسکے بعدبی-اے کرنے کی کوشش کی کیونکہ بی-اے کرنے کاپرائیوٹ سسٹم نہیں تھاتوڈاریکٹ کالج کے ذریعے کیا۔اس وقت زیادہ ترگورنمنٹ ادارے موجودتھے۔اسی طرح انہوں نے اپنی محنت کوجاری رکھتے ہوئے ہرمنزل کوپارکیااوراپنے اس محنت کے جذبے کوبرقراررکھا۔اپنی زندگی میں بہت سی شکلات کاسامناکرتے ہوئے اپنی پڑھائی کونہیں چھوڑا۔اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی صورت میں انکانام لاہورکے ''پنجاب کالج لاء''میں آگیاتھا۔لیکن عمرکی وجہ سے انہیں داخلانہیں مِلاکیونکہ ایک ملازم آدمی کوامتحان دینے کی اجازت اورگریجویشن کرنے کی بھی۔لیکن ایک پرائیوٹ آدمی کواجازت نہیں تھی کہ وہ غیرمنظورشُدہ کالج کے ذریعے اس میں داخلالے۔اسی وجہ سے وہ تنگ آکرکراچی آگئے اوریہاں آکرانھوں نے1987میں ''سندھ لاء کالج'' میں داخلالیاپھریہاں سے ایل-ایل-بی کیااورایل-ایل-بی کرنے کے بعدانکی پریکٹس جاری ہوگئی مزیدپریکٹس بڑھتی چلی گئی اوراس وقت سے لے کرابھی تک پریکٹس میں ہیں اوراب اس وقت سندھ ہائی کورٹ  کے لائیومیمبرہیں۔اس پریکٹس سے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں اورایک بھتیجے کوبھی لاء کرایا۔بے تہاشہ وکیلوں کاانکے ساتھ کام کرنے کامعمول ہے۔جسکی اہم وجہ ہی یہی ہے کہ وکیلوں کواُن سے تجربہ سیکھنے کوملتاہے جسکی بناء پرآج کئی لوگ اس چیمبرسے وکیل بن کرہائی کورٹ کے جج بن گئے ہیں۔ووٹرزکاانتخاب زیادہ تر معراج الدین کے حق میں اس لیے  ہوتاہے کیونکہ یہ کسی سے جھوٹ نہیں بولتے نہ دھوکادیتے ہیں اورپھرتعلیم کے معاملے میں جولوگ انکے پاس آتے ہیں یاتجربہ لیتے ہیں ان سے کوئی دغابازی نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی ان سے کوئی معاوضہ لیتے ہیں۔
محنت کے ا س سفرمیں ایک اہم واقعہ انکی زندگی میں پیش آیا۔جس سے انکواپنی زندگی میں بہت بڑاسبق ملا۔محنت کی اس کہانی کاتعلق نمازسے ہے۔معراج الدین پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتے تھے۔ ایک دفعہ جب وہ جمعہ کی نمازکے لیے مسجد گئے اورجاکراگلی صَف میں بیٹھ گئے۔جیسے ہی نمازکاوقت ہواتولوگوں نے ا نہیں پیچھے کرکرکے مسجدکی آخری صَف میں پہنچادیا۔یہاں تک کہ انھیں مسجدسے باہرکردیاگیالیکن ا نہوں نے پھربھی اپنی نمازپوری پڑھی۔لوگوں کی اس حرکت سے وہ بہت مایوس ہوئے اوراس وجہ سے انہوں نے مسجدجاناچھوڑدیااوراپنے گھرمیں نمازپڑھنے لگ گئے اورجہاں مناسب سمجھاوہاں نمازپڑھ لی۔لیکن انہوں نے کبھی نمازپڑھنانہیں چھوڑی اپنی نمازکوقائم رکھتے ہوئے زندگی کے اس سفرمیں آگے بڑھتے رہے۔                                                        
                         جن کابھروسہ اللہ ہو،ان کی منزل کامیاب ہے........
کامیابیوں کی اس بھاگ دوڑمیں انہوں نے بڑی محنت اورلگن سے ہرکام کوباخوبی سرانجام دیا۔جسکی بناء پرآج وہ ایک کامیاب شخص ہیں۔

No comments:

Post a Comment